سکم کے سب آدمیوں سے پوچھ دیکھو کہ تمہارے لئے کیا بہتر ہے ۔یہ کہ یرُبعل کے سب بیٹے جو ستر آدمی ہیں وہ تم پر سلطنت کریںیا یہ کہ یک ہی کی تم پر حکومت ہو ؟اور یہ بھی یاد رکھو کہ میں تمہوری ہی ہڈی اور تمہاراہی گوشت ہوں۔
اور اس کے ماموﺅں نے اس کے بارے میں سکم کے سب لوگوں کے کانوں میں یہ باتیں ڈالیں اور ان کے دل ابی ملک کی پیروی پر مائل ہو ئے کیو نکہ وہ کہنے لگے کہ یہ ہمارا بھائی ہے ۔
اور انہوں نے بعل بریت کے گھر میں سے چاندی کے ستر سکے اس کو دئے جن کے وسیلہ سے ابی ملک نے شہر کے شہدے اوربدمعاش لوگوں کو اپنے ہاں لگا لیا جو اس کی پیروی کرنے لگے ۔
اور وہ عفرہ میں اپنے باپ کے گھر گیا اور اس نے اپنے بھائیوں یرُبعل کے بیٹوں کو جو ستر آدمی تھے ایک ہی پتھر پر قتل کیا پر یرُبعل کا چھوٹا بیٹا یو تام بچا رہا کیونکہ وہ چھپ گیا تھا ۔
جب یوتام کو اس کی خبر ہو ئی تو وہ جا کر کوہ گرزم کی چوٹی پر کھڑا ہوا اور اپنی آواز بلند کی اور پکار پکار کر ان سے کہنے لگا اے سکم کے لوگومیری سنو ! تا کہ خدا تمہاری سنے ۔
تب زیتون کے درخت نے ان سے کہا کیا میں اپنی چکناہٹ کو جس کے باعث میرے وسیلہ سے لوگ خدا اور انسان کی تعظیم کرتے ہیں چھوڑ کر درختوں پر حکمرانی کرنے جاﺅں ؟
اونٹکٹارے نے درختوں سے کہا اگر تم سچ مچ مجھے اپنا بادشاہ مسح کرکے بناﺅ تو آﺅ میرے سایہ میں پناہ لو اور اگر نہیں تو اونٹکٹارے سے آگ نکل کر لبنان کے دیوداروں کو کھا جائے۔
سو بات یہ کہ تم نے جوابیِ ملک کو بادشاہ بنایا ہے اس میں اگر تم نے راستی و صداقت برتی ہے اور یرُبعل اور اس کے گھرانے سے اچھا سلوک کیا اور اس کے ساتھ اس کے احسان کے حق کے مطابق برتاﺅ کیا ۔
اور تم نے آج مےرے باپ کے گھرانے سے بغاوت کی اور اس کے ستر بیٹے ایک ہی پتھر پر قتل کئے اورا س کی لونڈی کے بیٹے ابی ملک کو سکم کے لوگوں کا بادشاہ بنایا اس لئے کہ وہ تمہارا بھائی ہے ۔
تاکہ جو ظلم انہوں نے یرُبعل کے ستر بیٹوں پر کیا تھا وہ ان ہی پر آئے اور ان کا خون انکے بھائی ابی ملک کے سر پر جس نے ان کو قت کیا اور سکم کے لوگوں کے سر پر ہو جنہوں نے اس کے بھائیوں کے قتل میں اس کی مددکی تھی ۔
اور وہ کھیتوں میں گئے اور اپنے اپنے تا کستان کا پھل توڑا اور انگوروں کا رس نکالا اور خوب خوشی منائی اور اپنے دیوتاﺅں کے مندر میں جا کر کھایا پیا اور ابی ملک پر لعنتیں برسائیں ۔
اور جعل بن عبد کہنے لگا ابی ملک کون ہے اور سکم کون ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں ؟کیا وہ یرُبعل کا بیٹا نہیں اور کیا زبول اس کا منصبدار نہیں ؟تم ہی سکم کے باپ حمور کے لوگوں کی اطاعت کرو ۔ہم ا س کی اطاعت کیوں کریں ؟
اور اس نے چالاکی سے ابی ملک کے پا س قاصد روانہ کئے اور کہلا بھیجا کہ دیکھ جعل بن عبد اور اس کے بھائی سکم میں آئے ہیں اور شہر کو تجھ سے بغاوت کرنے کی تحریک کر رہے ہیں ۔
اور جب جعل نے فوج کو دیکھا تو وہ زبول سے کہنے لگا دیکھ پہاڑوں کی چوٹیوں سے لوگ اتر رہے ہیں ۔زبول نے اس سے کہا کہ تجھے پہاڑوں کا سایہ ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے آدمی ۔
تب زبول نے اسے کہا اب تیرا وہ منہ کہاں ہے جو تو کہا کرتا تھا کہ ابی ملک کون ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں ؟کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جن کی تو نے حقارت کی ہے ؟سو اب ذرا نکل کر ان سے لڑتو سہی ۔
سو ابی ملک نے فوج لیکر ا کے تین غول کئے اور میدان میں گھات لگائی اور جب دیکھا کہ لوگ شہر سے نکلے آتے ہیں تو وہ ان کا سامنا کرنے کو اٹھا اور ان کو مارلیا ۔
اور ابی ملک اس غول سمیت جو اس کے ساتھ تھا آگے لپکا اور شہر کے پھاٹک کے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور وہ دو غول ان سبھوں پر جو میدان میں تھے جھپٹے اور ان کو کاٹ ڈالا ۔
تب ابی ملک اپنی فوج سمیت ضلمون کے پہاڑ پر چڑھا اور ابی ملک نے کلہاڑا اپنے ہاتھ میں لے درختوں میں سے ایک ڈالی کاٹی اور اسے اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لیا اور اپنے ساتھ کے لوگوں سے کہا جو تم نے مجھے کرتے دیکھا ہے تم بھی جلد ویسا ہی کرو ۔
تب ان سب لوگوں میں سے ہر ایک اسی طرح ایک ڈالی جاٹ لی اور وہ ابی ملک کے پیچھے ہو لئے اور انکو قلعہ پر ڈال کر قلعہ میں آگ لگا دی چنانچہ سکم کے برج کے سب آدمی بھی جو مرد اور عورت ملا کر قریباََایک ہزار تھے مر گئے ۔
لیکن وہاں شہر کے اندر ایک بڑا محکم برج تھا سو سب مرد اور عورتیں اور شہر کے سبب باشندے بھاگ کر اس میں جا گھسے اور دروازہ بند کر لیا اور برج کی چھت پر چڑھ گئے ۔
تب ابی ملک نے فوراََ ایک جوان کو جو اس کا سلاح بردار تھا بلا کر اس سے کہا کہ اپنی تلوار کھینچ کر مجھے قتل کر ڈال تا کہ میرے حق میں لوگ یہ نہ کہنے پائیں کہ ایک عورت نے اسے مار ڈالا سو اس جوان نے اسے چھید دیا اور وہ مر گیا ۔