اور خداوند نے شیطان سے پُوچھا کہ تو کہاں سے آتا ہے ؟ شیطان نے خداوند کو جواب دیا کہ زمین پر اِدھر اُدھر گُھومتا پھِرتا اور اُس میں سیر کرتا ہُوا آیا ہُوں ۔
خداوند نے شیطان سے کہا کیا تُو نے میرے بندہ ایوب ؔ کے حال پر بھی کچھ غَور کیا ؟ کیو نکہ زمین پر اُسکی طرح کامل اور راستبا ز آدمی جو خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں اور گو تُو نے مُجھ کو اُبھارا کہ بے سبب اُسے ہلاک کروُں تو بھی وہ اپنی راستی پر قائم ہے ۔
پر اُس نے اُس سے کہا کہ تو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سُکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں ؟ اِن سب باتوں میں ایوب ؔ نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی ۔
جب ایوبؔ کے تین دوستوں تیمانی اِلیفزؔ اور سُوخی بَلددؔ اور نعماتی ضُوفرؔ نے اُس ساری آفت کو حال جو اُس پر آئی تھی سُنا تو وہ اپنی اپنی جگہ سے چلے اور اُنہوں نے آپس میں عہد کیا کہ جاکر اُسکے ساتھ روئیں اور اُسے تسلّی دیں ۔
اور جب اُنہوں نے دُور ست نگاہ کی اور اُسے نہ پہچانا تو وہ چلاّ چلاّ کر رونے لگے اور ہر ایک نے اپنا پیراہن چاک کیا اور پنے سر کے اُوپر آسمان کی طرف دُھول اُڑائی ۔