اور تیسرے دن ایسا ہوا کہ آستر شاہانہ لباس پہنکرشاہی محل کی بارگاہ اندرونی میں شاہی محل کے سامنے کھڑی ہو گئی اور بادشاہ اپنے شاہی محل میں اپنے تخت سلطنت کے مقابل کے دروازہ پر بیٹگا تھا۔
اور ایسا ہوا کہ جب بادشاہ نے آستر ملکہ کو بارگاہ میں کھڑی دیکھا تو وہ اسکی نظر میں مقبول ٹھہری اور بادشاہ نے وہ سنہلا عصا جو اسکے ہاتھ میں تھا آستر کی طرف بڑھایا۔سو آستر نے نزدیک جا کر عصا کی نوک کو چھوا۔
اگر میں بادشاہ کی نظر میں مقبول ہوں اور بادشاہ کو منظور ہو کہ میرا سوال قبول اور میری درخواست پوری کرے تو بادشاہ اور ہامان میرے جشن میں جو میں انکے لئے کرونگی۔
اس دن ہامان شادمان اور خوش ہو کر نکلا پر جب ہامان نے بادشاہ کے پھاٹک پر مردکی کو دیکھا کہ اسکے لئے نہ کھڑا ہوا نہ ہٹا تو ہامان مردکی کے خلاف غصہ سے بھر گیا۔
اور ہامان انکے آگے اپنی شان و شوکت اور فرزندوں کی کثرت کا قصہ کہنے لگا اور کس کس طرح بادشاہ نے اسکی ترقی کی اور اسکو امرا اور بادشاہی ملازموں سے زیادہ سرفراز کیا۔
ہامان نے یہ بھی کہا دیکھو آستر ملکہ نے سوا میرے کسی کو بادشاہ کے ساتھ اپنے جشن میں جو اس نے تیار کیا تھا آنے نہ دیا اور کل کے لئے بھی اس نے بادشاہ کے ساتھ مجھے دعوت دی ہے۔
تب اسکی بیوی زرش اور اسکے سب دوستوں نے اس سے کہا کہ پچاس ہاتھ اونچی سولی بنائی جائے اور کل بادشاہ سے عرض کر کہ مردکی اس پر چٹھایا جائے تب خوشی خوشی بادشاہ کے ساتھ جشن میں جانا۔یہ بات ہامان کو پسند آئی اور اس نے ایک سولی بنوائی۔