ان سب باتوں پر میں نے دل سے غور کیا اور سب حال کی تفتیش کی اور معلوم ہُوا کہ صادق اور دانش مند اور اُن کے کام خُدا کے ہاتھ میں ہیں۔ سب کُچھ انسان کے سامنے ہے لیکن وہ نہ مُحبت جانتا ہے نہ عداوت۔
سب کُچھ سب پر یکساں گُزرتا ہے۔ صادق اور شریر پر۔ نیکوکار اور پاک اور ناپاک پر ۔ اُس پر جو قُربانی گُزرانتا ہے اور اُس پر جو قربانی نہیں گُزرانتا ایک ہی حادثہ واقع ہوتا ہے۔ جیسا نیکوکار ہے ویسا ہی گُہنگار ہے ۔جیسا وہ جو قسم کھاتا ہے ویسا ہی وہ جو قسم سے ڈرتا ہے۔
سب چیزوں میں جو دُنیا میں ہوتی ہیں ایک زبوُنی یہ ہے کہ ایک ہی حادثہ سب گُزرتا ہے۔ وہاں بنی آدم کا دل بھی شرارت سے بھرا ہے اور جب تک وہ جیتے ہیں حماقت اُن کے دل میں رہتی ہے اور اس کے بعد مُردوں میں شامل ہوتے ہیں۔
اپنی بطالت کی زندگی کے سب دن جواُس نے دُنیا میں تجھے بخشی ہے ہاں اپنی بطالت کے سب دن اُس کی بیوی کے ساتھ جو تیری پیاری ہے عیش کر لے کہ اس زندگی میں اور تیری اُس محنت کے دوران میں جو تو نے دُنیا میں کی تیرا یہی بخرہ ہے۔
پھر میں نے توجہ کی اور دیکھا کہ دُنیا میں نہ تو دوڑ میں تیز رفتار کو سبقت ہے نہ جنگ میں زور آور کو فتح اور نہ روٹی دانش مند کو ملتی ہے نہ دولت عقل مندوں کو اور نہ عزت اہل خرد کو بلکہ اُن سب کے لے وقت اور حادثہ ہے۔
کیونکہ انسان اپنا وقت بھی نہیں پہچانتا۔ جس طرح مچھلیاں جو مُصیبت کے جال میں گرفتار ہوتی ہیں اور جس طرح چڑیاں پھندے میں پھنسائی جاتی ہیں اُسی طرح بنی آدم بھی بدبختی میں جب اچانک اُن پر آپڑتی ہے پھنس جاتے ہیں۔