دانش مند کے برابر کون ہے ؟ اور کسی بات کی تفسیر کرنا کون جانتا ہے؟ انسان کی حکمت اُس کے چہرہ کو روشن کرتی ہے اور اُس کے چہرہ کی سختی اُس سے بدل جاتی ہے۔
کسی آدمی کو روح پر اختیار نہیں کہ اُسے روک سکے اور مرنے کا دن بھی اُس کے اختیار سے باہر ہے اور اُس لڑائی سے چُھٹی نہیں ملتی اور نہ شرارت اُس کو جو اُس میں غرق ہے چُھڑائے گی۔
ایک بطالت ہے جو زمین پر وقوع میں آتی ہے کہ نیکوکار لوگ ہیں جن کو وہ کُچھ پیش آتا ہے جو تھا کہ بد کردارں کو پیش آتا اور شریر لوگ ہیں جن کو وہ کُچھ ملتا ہے جو تھا کہ نیکوکاروں کو ملتا ۔ میں نے کہا کہ یہ بھی بُطلان ہے۔
تب میں نے خُرّمی کی تعریف کی کیونکہ دُنیا میں انسان کے لے کوئی چیز اس سے بہتر نہیں کہ کھائے اور پئے اور خُوش رہے کیونکہ یہ اُس کی محنت کے دوران میں اس کی زندگی کے تمام ایّام میں جو خُدا نے دُنیا میں اُسے بخشی اُس کے ساتھ رہے گی۔
جب میں نے اپنا دل لگایا کی حکمت سیکھوں اور اس کام کاج کو جو زمین پر کیا جاتا ہے دیکھوں ( کیونکہ کوئی ایسا بھی ہے جس کی آنکھوں میں نہ رات کو نیند آتی ہے نہ دن کو) ۔
تب میں نے خُدا کے سارے کام پر نگاہ کی اور جانا کہ انسان اُس کام کو جو دُنیا میں کیا جاتا ہے دریافت نہیں کر سکتا۔ اگرچہ انسان کتنی ہی محنت سے اُس کی تلاش کرے پر کُچھ دریافت نہ کرے گا بلکہ ہر چند دانش مند کو گُمان ہو کہ اُس کو معلوم کر لے پر وہ کبھی اُس کو دریافت نہیں کرے گا۔