اور انبیاء زادوں کی بیویوںمیں سے ایک عورت نے الیشع سر فریا د کی اور کہنے لگی کہ تیرا خادم میرا شوہر مر گیا ہے اور تُو جانتا ہے کہ تیرا خادم خُداوند سے ڈرتا تھا ۔ سو اب قرضخواہ آیا ہے کہ میرے دونوں بیٹوں کو لے جائے تاکہ وہ غُلام بنیں ۔
اور ایک روز ایسا ہُوا کہ الیشع شونیم کو گیا ۔ وہاں ایک دولتمند عورت تھی اور اُس نے اُسے روٹی کھانے پر مجبور کیا۔ پھر تو جب کبھی اُدھر سے گذرتا روٹی کھانے کے لیے وہیں چلا جاتا تھا ۔
ہم اُسکے لیے ایک پلنگ اور کوٹھری دیوار پر بنا دیں اور اُس کے لیے ایک پلنگ اور میز اور چوکی اور شمعدان لگا دیں ۔ پھر جب کبھی وہ ہمارے پاس آئے تو وہیں ٹھہرے گا ۔
پھر اُس نے اپنے خادم سے کہا تُو اُس سے پوچھ کہ تُو نے جو ہمارے لیے اِس قدر فکریں کیں تو تیرے لیے کیا کِیا جائے؟ کیا تُو چاہتی ہے کہ بادشاہ سے یا فوج کے سردار سے تیری سفارش کی جائے؟ اُس نے جواب دیا میں تو اپنے ہی لوگوں میں رہتی ہوں ۔
اور اُس نے اپنے شوہر سے پُکار کر کہا کہ جلد جوانوں میں سے ایک کو اور گدھوں میں سے ایک کو میرے لیے بھیج دے تاکہ میں مردِ خُدا کے پاس دوڑ جاوں اور پھر لوٹ آنا
اور جب وہ اُس پہاڑ پر مردِ خُدا کے پاس آئی اور اُس کے پاوں پکڑ لیے اور جیحازی اُسے ہٹانے کے لیےنزدیک آیا پر مردِ خُدا نے کہا کہ اُسے چھوڑ دے کیونکہ اُس کا جی پریشان ہے اور خُداوند نے یہ بات مجھ سے چھپائی اور مجھے نہ بتائی۔
تب اُس نے جیحازی سے کہا کمر باندھ اور میرا عصا ہاتھ میں لے کر اپنی راہ لے اگر کوئی تجھے راہ میں مِلے تو اُسے سلام نہ کرنا اور اگر کوئی تجھے سلام کرے تو جواب نہ دینا اور میرا عصا اُس لڑکے کے منہ پر رکھ دینا ۔
اور جیحازی نے اُس سے پہلے آکر عصا کو اُس لڑکے کے منہ پر رکھا پر نہ تو کچھ آواز ہوئی نہ سُننا اِس لیے وہ اُس سے مِلنے کو لوٹا اور اُسے بتایا کہ لڑکا نہیں جاگا۔
اور اُوپر چڑھ کر اُس بچے پر لیٹ گیا اور اُس کے منہ پر اپنا منہ اور اُس کی آنکھوں پر اپنی آنکھیں او ر اُس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ لیے اور اُس کے اوپر پسر گیا ۔ تب اُس بچے کا جسم گرم ہونے لگا ۔
اور الیشع پر جلجال میں آیا اور مُلک میں کال تھا ۔ اور انبیاء زادے اُس کے حضور بیٹھے ہوئے تھے اور اُس نے اپنے خادم سے کہا بڑی دیگ چڑھا دے اور اِن انبیا زادوں کے لیے لپسی پکا۔
اور اُن میں سے ایک کھیت میں گیا تو کچھ ترکاری چُن لائی سو اُسے کوئی جنگلی لتا مل گئی اُس نے اُس میں سے اندر این توڑ کر دامن بھر لیا اور لوٹا اور اُن کو کاٹ کر لپسی کی دیگ میں ڈال دیا کیونکہ وہ اُن کو پہچانتے نہ تھے ۔
چنانچہ اُناہوں نے اُن مردوں کے کاکھانے کے لیے اُس میں سے انڈھیلا اور ایسا ہُوا کہ جب وہ اُس لپسی میں سے کھانے لگے تو چِلا ٹھے اور کہا اے مردِ خُداا دیگ میں موت ہے اور وہ اُس میں سے کھا نہ سکے ۔
اور بعل سلیسہ سے ایک شخص آیا اور پہلے پھلوں کی روٹیاں یعنی جَو کے بیس گِردے اور اناج کی ہری ہری بالیں مردِ خُدا کے پاس لایا اُس نے کہا اِن لوگوں کو دے دے تاکہ وہ کھائیں
اُس کے خادم نے کہا کیا میں اتنے ہی کو سو آدمیوں کے لیے سامنے رکھ دوں ؟ سو اُس نے پھر کہا کہ لوگوں کو دے دے تاکہ وہ کھائیں کیونکہ خُداوند یوں فرماتا ہے کہ وہ کھائیں گے اور اُس میں سے کچھ چھوڑ بھی دیں گے ۔