اور داؔؤد نؔوب میں اؔخیملک کاہن کے پاس آیا اور اؔخمیلک داؔؤد سے مِلنے کو کانپتا ہُؤا آیا اور اُس سے کہا تُو کیون اکیلا ہے اور تیرےساتھ کو ئی آدمی نہیں ؟۔
داؔؤد نے اِخؔمیلک کاہن سے کہا کہ بادشاہ نے مھے ایک کام کا حُکم کر کے کہا ہے کہ جِس کرم پر مَیں تجھے بھیجتا ہوُں اور جو حُکم میں تجھے نے تجھے دیا ہے وہ کِسی شخص پر ظاہر نہ ہو ۔ سو میں نے جونوں کو فُلانی فُلانی جگہ بِٹھا ید اہے۔
داؤد نے کاہن کو جواب دِیا سچ تو یہ ہے کہ تین دِن سے عَورتیں ہم سے الگ رہی ہیں اور اگرچہ یہ معُمولی سفت ہے تَو بھی جب مَیں چلا تھا تب اِن جوانوں کے برتن پاک تھے تو آج تو ضرُور ہی وہ برتن پاک ہونگے ۔
تب کاہن نے مُقدّس روٹی اُسکو دی کیونکہ اَور روٹی وہاں نہیں تھ فقط نذر کی روٹی تھی جو خُداوند کے آگے سے اُٹھائی گئی تھی۔ تاکہ اُسکے عِوض اُس دِن جب وہ اُٹھائی جائے گرم روٹی رکھی جائے۔
پھر داؔؤد نے اِخؔیملک سے پوچھا کیا یہاں تیرے پاس کوئی نیزہ یا تلوار نہیں؟ کیونکہ اپنی تلوار اپنے ہتھار اپنے ساتھ نہیں لایا؟ کیونکہ بادشاہ کے کام کی جلدی تھی۔
اپس کاہِن نے کہا کہ فلِستی جؔولیت کی تلوار جِسے تُو نے اؔیلاہ کی وادی میں قتل کیا کپڑے میں لپٹی ہُؤئی اَفوُ د کے پیچھے رکھّی ہے ۔ اگر تُو اُسے لینا چاہتا ہے تو لے ۔ اُسکے سِوا یہاں کو ئی اور نہیں ہے۔ داؔؤد نے کہا وَیسی تو کوئی ہے ہی نہیں ۔ وہی مجھے دے۔
اور اکؔیس کے مُلازِموں نے اُس سے کہ کے کیا یہی اُس مُلک کا بادشا ہ داؤد نہیں ؟ کیا اِسی کے بارہ میں ناچتے وقت گا گا کر اُنہوں نے آپس میں نہیں کہا تھا کہ ساؔؤل نے تو ہزاروں کو پر داؤد نے لاکھوں کو مارا؟۔
سو وہ اُنکے آگے دُوسری چال چلا اور اُنکے ہاتھ پڑ کر اپنے کو دِیوانہ بنا لیا اور پھاٹک کے کواڑوں پر لکیرٰیں کھینچنے اور اپنے تھُوک کو اپنی داڑی پر بہانے لگا۔